New Step by Step Map For احساس

پلاسٹک کو چند گھنٹوں میں تلف کرنے والی ٹیکنالوجی دریافت

دلخوری، نارضایتی، آزردگی، رنجیدگی، دلشکستگی، تنفر، خشم، دشمنی

یہ بھی پڑھیں : اسمارٹ فونز کی روشنی ہمیں کیسے متاثر کرتی ہے؟

تجربیات زندگی من را وا داشته بود تا خاموشی گزینم و افکارم را برای خود نگه دارم. اما می ترسم فردا بمیرم و خودم را نشناخته باشم پس تصمیم گرفتم، بنویسم تا بشنوم چه مي گويم و دريابم چه فکر مي کنم.

کیا آپ بھی کورونا کا شکار ہوچکے ہیں... جانئے وائرس صحت یابی کے بعد کب جسم میں موجود رہتا ہے؟

‍گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کے لئے فوری اقدامات نہیں کیے گئے تو جنگلات کے علاوہ سمندر، دریا اور جھیل یہاں تک کے انسانی رہائش کا علاقہ بھی بنجر اور صحرا میں تبدیل ہوجائے گا

دنیا کو طرح طرح سے نقصان پہنچانے والا امریکہ ، خود امریکیوں کیلئے کیسا ہے ؟یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ساری دنیا کو حیرت میں مبتلا رکھتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ خود اپنے لئے ایک بہت حیران کن اور شاندار ملک ہے ۔ آپ امریکی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرسکتے ہیں مگر امریکی عوام کی تعریف کئے بنا نہیں رہ سکتے ۔ امریکہ کی اتنی بہت سی خرابیوں کا جائزہ لینے کے بعد اگر امریکہ کی خوبیوں پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ نے کئی شعبوں میں بہت عمدہ مثالیں بھی قائم کیں ۔ موسیقی اور آرٹ میں ، طب اور سائنس میں ، تعلیم اور یجادات میں ، متعدد شعبوں میں امریکہ سب سے نمایاں ، سب سے ممتاز نظر آتا ہے ۔ یہ کئی شعبوں میں سب سے آگے رہا ہے اور متعدد بار اس نے اپنی سبقت کو نہایت روشن خیالی کے ساتھ ، بہت فیاضی کے ساتھ استعمال کیا ہے ۔ اس کی خوبیاں ، اس کے اندر پوشیدہ طاقت اور اس کے اپنے پیمانے ۔۔یہی وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے یہ ا س وقت خود ہم امریکیوں کی تنقید کا نشانہ نہیں بنتا ہے ، جب یہ کسی خاص معیار پر پورا اُترنے سے قاصر رہتاہے ۔

زیر نظر کتاب میں مصنف جان ٹرومین نے امریکی پالیسیوں اور امریکہ کے مسلم امہ پہ ہونے والے مظالم سے آگاہ کیا ہے ۔

ہمارے کلاس روم کا ماحول نہ صرف ایک ایسی جگہ تھی جہاں ہم نے نہ صرف نئے مضامین سیکھے تھے، بلکہ کہیں نہ کہیں ہم نے سوالات بھی کھڑے کئے، انھیں چیلنج کیا اور اپنے افکار و خیالات کا دوبارہ جائزہ بھی لیا۔ ہمارے اساتذہ اور ہم جماعت طلباء کے ذریعے یکساں طور پر پیدا کردہ کھلی فضاء نے ہمیں موضوعات کے ساتھ آزادانہ طور پر منہمک ہونے کا حوصلہ بخشا۔ جس چیز کے ہم سب سے زیادہ منتظر رہتے تھے وہ تھا کلاس کے مباحثے میں شریک ہونا اور جس خیال پر ہمارا یقین ہوتا تھااُس کو پرزور انداز میں پیش کرنا۔ دوران بحث ہمارے اساتذہ جس طرز سے ہمارے افکار کو چیلنج کیا کرتےاُس نے ہمیں ہمارے پیش کردہ نکات کی تائید کے لئے ثبوت و دلائل تلاش کرنے پر مجبور کیا۔ ہماری خوش قسمتی یہ click here تھی کہ ہمارے ساتھ ہماری تاریخ کے کلاسوں میں ایسے ہم عمر لوگ تھے جو ہماری ہی طرح تاریخ کے مطالعہ کا شوق رکھتے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت سے ہم خوب لطف اندوز ہوتے تھے، اور ایک دوسرے کے ساتھ بحث کرنے کے تجربے نے ہمیں مضبوط بنادیا۔ ہمیں وہ دن اچھی طرح یاد ہیں جب ہم کسی مسئلہ پر بحث کے لیے کس قدر سنجیدہ ہوجایا کرتے تھے، بجائے دیگر مضامین کی کلاسیس کے جب ہم اپنے معمول کے مطابق پنسل کیس کے ساتھ اضطرابی کیفیت میں رہتے۔ اپنے آپ کو موثر طریقے سے اظہار کرنے کی خواہش و صلاحیت، ایسا سرمایہ تھا جو ہمارے ساتھ باقی رہ گیا۔ اب ہم اپنے سماجی اور سیاسی افکار کو بہتر و مفصّل طریقے سے بیان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، اور اپنی بات کو دلائل کے ساتھ رکھنے کی صلاحیت میں بھی نکھار آچکا ہے۔

کولمبس نے اس امر کے باوجود کہ ان جزیروں میں پہلے سے ہی ہزاروں لوگ آباد ہیں اور وہ اپنے قاعدے ، قانون رسم ورواج ، مذہب اور ثقافت کے مطابق زندگی گزاررہے ہیں ، ان جزیروں پر اسپین کی شاہی حکومت کی ملکیت کا دعویٰ کردیا ۔ اس علاقے کو ہسپانوی نام ” سان لویڈور” سے منسوب کیا اور مقامی آبادی کو اپنے قیافے کے مطابق انڈینز کہاگیا ۔ مقامی لوگوں سے اپنی پہلی ملاقات کے بارے میں کولمبس نے اپنے روز نامچے میں لکھا ” وہ ہمارے لئے رنگ برنگ پرندے ، روئی کے گٹھے ، کمانیں اور دوسری اشیاء لے کر آئے اور ہم سے بدلے میں بیلوں کی گردن میں ڈالنے والی گھنٹیاں اور شیشے کی لڑیاں لے گئے ” ۔

شیریں مزاری کی گرفتاری پر پی ٹی آئی کا ملک گیر احتجاج کا اعلان

ملک میں جاری سیاسی بحران اور قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد نگراں وزیر اعظم کون ہوگا اس بارے میں نیا آئینی سوال پیدا ہوگیا ہے۔ 

دبئی نے وبا کے بعد کی دنیا میں سب سے زیادہ کھلے شہروں کے حوالے سے اپنی عالمی حیثیت کومستحکم کیا

دنیا کے کئی اہم سائنس دان اب اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ سائنس کی تیز رفتار ترقی جہاں دنیا کو بدل رہی ہے، وہیں انسانیت کی تباہی میں بھی کردار ادا کر رہی ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ نے خبردار کیا کہ انسان کی اپنے ہاتھوں سے بنائی گئی ایجادات اسی کی بقا کےلیے خطرہ بن چکی ہیں اور اس کا وجود ختم ہوسکتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ نے خبردار کیا کہ جوہری جنگ، عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور خود تخلیق کردہ وائرس انسانی بقا کےلیے خطرہ بن سکتے ہیں جب کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کچھ ایسے نئے دروازے کھول رہی ہے جو کسی بھی وقت غلط راستے پر جاسکتے ہیں۔ بالآخر دنیا کو زمین کے علاوہ کائنات کی دیگر دنیاؤں میں بھی آبادیاں بسانی پڑیں گی جو اس تباہی سے بچنے کا واحد راستہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *